Saturday, August 29, 2009

faryad e tanhae


منزل عشق میں وہ مقام آجائے۔۔۔ جہاں اپنا درد بانٹنے کے لئے اپنے سائے سے التجا کرنی پڑے، جو خود اس درد سے پیچھا چھڑا کر کہیں دور نکلنے کی
سوچ رہا ہے۔۔۔ تو خود سے ہمکلامی اجنبیت کا معراج ثابت ہوتی ہے۔
ہائے افسوس کے ہم اس مقام سے کس قدر قریب آگئے کہ
سائے کو دور جاتا دیکھ بھی، فریاد و فغاں گلے میں گھٹ رہی ہے۔ سائے کی آزادی پر رشک اور اپنے وجود پرحیرت بے مایہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش، جستجو، طلب کی تعبیر محض درد ہی ہو تو کیا کیجئے۔۔۔
لیکن جو درد جستجوئے عمر کی تعبیر ہو اسکے ناز اٹھانا سب سے بڑی
سعادت ہے۔۔ تنہائی سراپا درد ہے اور درد سراپا تنہائی۔۔ تنہائی ہنگامہ آرائی سے نکل کر لذّت درد سے قریب کرتی ہے اور درد مسائل زیست سے دریافت خودی کی طرف متوجّہ کرتا ہے۔۔
تنہائی تاریخ میں لیجاتی ہے اور درد تاریخ لکھ جاتی ہے۔
جب وجود ذات دوسروں کی مرہون منّت لگنے لگے تو تنہائی کی تلاش
اور درد کا احساس سب سے قیمتی متاع بن جاتی ہے۔۔۔
ساحل کے کنارے وہ انھی دو چیزوں کی تلاش میں آیا تھا۔۔
ریت پر تحریر، درد اور تنہائی کے کسی خاص رشتے کو بیان کرتی ہے۔۔۔
وجود کسی ایسی شئے کے سامنے اچانک آجائے جہاں فنا دور تک
محسوس نہ ہوتی ہو، تو زندگی کی ایک نئی تاویل سامنے آنے لگتی ہے۔۔
سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر وہ اسی تاویل کو تلاش کرتا۔۔
لیکن جہاں تاویل صرف درد ہو اور درد لافانی۔۔
تو ہر تاویل بے معنیٰ بن جاتی ہے۔۔وہ ریت پر وہی تحریر لکھنے لگا کہ اچانک۔۔۔۔۔
اسنے اپنے آپ کو مخاطب کیا--
"ریت سے درد بانٹنے کا کیا فائدہ؟؟"
موج تیز رفتہ کی آمد سے تحریر مٹ گئی۔۔لیکن وہ تحریر کہاں تھی، وہ درد تھا۔۔۔
ریت سے درد بانٹنے کا یہی تو فائدہ ہے اسکا مٹانا بھی آسان اور لکھنا بھی۔۔۔


No comments:

Post a Comment